اسلام دین فطرت ہے اس نے انسانیت کی ہر دور میں رہنمائی کی ہے۔ انسان کی نجی زندگی ہو یا معاشرے کے اجتماعی مسائل و معاملات ہوں اس سلسلے میں اسلام کی ہدایات بہت واضح ہیں۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ و سلم نے عملی طور پر ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دیا ۔ اس معاشرے میں چھوٹے بڑے، امیر و غریب، بچے بوڑھے، مرد و خواتین سب کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ۔ جس کے نتیجے میں جہالت کی تاریکیوں میں گم ُ انسانیت کو ہمیشہ کے لئے راہ ہدایت میسر آگئی۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو معزز بنایا لیکن جاہل انسانوں نے اسے لہو و لعب کا کھلونا بنا دیا، اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ، تاریخ کے اوراق دیکھئے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب و مکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں پھینک دی گئی۔
قدیم مذہبی پیشواؤں نے عورت کو دنیا کے لئے باعثِ ذلت و عار اور اس کے وجود کو مصیبت و معصیت کا منبع اور اسے انسانیت کے ماتھے کا کلنک بتا یا ہے۔ ان کا خیال ہے اگر عورت کا وجود نہ ہو تا تو مردوں کو اس دنیا میں مختلف قسم کے مصائب و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔ اسی لئے تو قدیم یونانی علماء و مفکرین اور فلسفی حضرات دنیا میں موجود تمام آفات و مصائب کی جڑ عورت کو قرار دیتے ہیں۔لیکن اسلام کا نقطہ نظر ان سب سے جداگانہ ہے۔ اسلام نے پہلی بار عورت کو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اس کا جائز مقام اور مرتبہ عطا کیا، اس کی صلاحیتوںکو تسلیم کیا۔ اسلام نے صرف یہی نہیں کیا کہ عورتوں کے لئے چند حقوق متعین کر دیئے بلکہ ان کو مردوں کی طرح حقوق دے کر ان کی شخصیت کو مکمل قرار دیا۔بلکہ محسن ِانسانیت جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سماج پر احسان عظیم فرماتے ہوئے عورتوں کو ظلم و ستم ، بے حیائی، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا، انہیں تحفظ بخشا، ان کے حقوق اجاگر کئے۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی وغیرہ کی حیثیت سے ان کے فرائض بتلائے اور انہیں شمع خانہ بنا کر عزت و احترام کی سب سے اونچی مسند پر فائز کر دیا۔

عورت کے تعلیمی حقوق
اسلام دنیا کا وہ پہلا دین اور اول نظامِ حیات ہے جس نے مرد اور عورت کے لئے حصولِ علم کو فرض قرار دیا ۔ عورت اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو اُس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک وہ دینی و دنیوی اُمور سے بخوبی واقف نہ ہو۔پھر اسلام نے عورت کی تعلیم و تربیت پر خاص زور دیا ہے۔سوائے چند تخصیصی اُمور میںجو کہ عورت کے ساتھ خاص ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فرامین جو عورت کی تعلیم و تربیت کے لئے جاری فرمائے تھے ان کا کئی ایک ابواب میں ذکر کیا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’۔۔۔۔ورجل کانت عندہ أمۃ فأَدَّبھا فأحسن تأدیبھا، وعَلَّمَھا فأحسن تعلیمھا، ثم أعتقھا فتزَوَّجّھَا فلہ أجران‘‘ (صحیح البخاری: رقم ۹۷) ’’۔۔۔۔ایک شخص کے پاس لونڈی ہو تو وہ اسے ادب سکھائے اور اس کی اچھی تربیت کرے، اسے علم سکھائے اور اس کو اچھی تعلیم دے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اسے دوہرا اجر ملے گا‘‘۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خواتین (صحابیات) نے عرض کی : ’’غلبنا علیک الرجال، فاجعل لنا یوما من نفسک، فوعدھن یوما لقیھن فیہ، فوعظھن وأمرھن‘‘ (صحیح البخاری:رقم ۱۰۱) کہـ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کے مسائل حاصل کرنے میں مرد ہم سے بڑھ گئے ہیں،ہمارے لئے ایک دن خاص فرمادیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ پھر اس کے مطابق آپ اُن سے ملے اور انہیں نصیحت فرمائی اور انہیں حکم دیئے‘‘۔
اُم المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے انصار کی عورتوں کی اس بات پر تعریف کی کہ انہوں نے دین سیکھنے میں حیاء کو مانع نہیں ہونے دیا۔(صحیح مسلم:حدیث نمبر ۷۷۶)
غرض صحابیات و مسلم خواتین کے کارنامے تمد ن کے تمام عنوانات پر منقسم ہیں ۔ خواہ ان کا تعلق مذہبی ، علمی یا عملی کارناموں سے ہی کیوں نہ ہو ہر میدان میں تاریخی کتب ان خواتین کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔مگر افسوس! بعد کے ادوار میں عورت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی، ان کی قابلیت و صلاحیت کو تسلیم نہیں کیا گیا، اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے زندگی کے عملی میدان سے اسے بے دخل کر کے ایک خاص دائرے میں قید کر دیا گیا، اسے علم کی روشنی سے محروم رکھا گیا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پہلی حدیث کی راویہ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا جبکہ آ پ صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری حدیث کی راویہ بھی اُم المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تعلیم کی صلاحیت دی ہے اور اگر وہ علم حاصل نہیں کر تا تو یہ اُس صلاحیت کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے ، اس لئے خالق نے اسے بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے۔
مسلمانوں کے اسلاف نے اس حکم کی تعمیل میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ چنانچہ جب مسلمان تہذیب و تمدن کے مالک تھے تو انہوں نے کسی علم کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا بلکہ تمام علوم کو اپنی درس گاہوں میں پذیرائی دی۔
لیکن جب مغرب تہذیب و تمدن کا مالک بنا تو اس نے اسلامی تعلیمات کو درس گاہوں سے نکال دیا مگر مسلمانوں کے ایک طبقہ نے اُس وقت بھی اسلامی تعلیمات کو تحفظ دیا ۔ اور پھر یہیں سے علوم ! دینی اور دنیوی علوم میں تقسیم ہو گئے، ورنہ اسلام نے کبھی علم کو اس طرح تقسیم نہیں کیا۔
دوسری جانب ہمارے اپنے ملکِ پاکستان میں ایک ایسا مذہبی طبقہ و گروہ موجود ہے۔ جس نے بچوں خصوصاً بچیوں کو تو دنیوی علوم سے کلی طور پر بیگانہ کر کے جبراً ان کے حصول سے محروم کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں بسنے والے اس طرح کے بے علم لو گوں نے دینی و دنیاوی تعلیم سے دور رہنے کی وجہ سے اپنی بچیوں کے نکا ح قرآن مجید سے کرنے شروع کر دیئے اور اس کے علاوہ دیگر خرافات میں مبتلا ہو گئے۔

تعلیمِ نسواں کی اہمیت
تعلیمِ نسواں کی ضرورت و اہمیت کو سامنے رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں خواتین کے کردار کو کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی بچوں کو وہ تربیت دے سکتی ہے جس کا تقاضا دین اور معاشرہ کر تا ہے۔ یہ تقاضا اس صورت میںپورا ہو گا جب ایک مسلمان خاتون خود کتاب و سنت کی تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ دنیاوی علوم سے بھی واقف ہو، تاکہ وہ اپنے فرض ِمنصبی کو ادا کرنے کے لئے بہترین کردار ادا کر سکے۔

الجامعۃ السلفیۃ للبنات کا آغاز
اسلام آباد پاکستان کا درالحکومت ہے اور محل وقوع کے لحاظ سے ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جس کے اطراف میں پوٹھو ار، گلیات ، آزاد کشمیر ، کے پی کے اور فاٹا کے علاقے موجود ہیں۔ ان علاقوں میں بچیوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کے حسین امتزاج پر مبنی کوئی مثالی ادارہ موجود نہیں تھا۔
ان علاقوں کے احباب نے انتظامیہ جامعہ سلفیہ کو کئی بار بچیوں کے ادارہ کی طر ف توجہ دلائی اور انتظامیہ بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پرکافی عرصہ سے مشاورت ا ور غور خوض کر تی رہی۔ بالآخراحباب کے پر ُزور مطالبہ اور اصرار کو سامنے رکھتے ہوئے اور مذکورہ علاقوں کی ضروریات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ جامعہ سلفیہ نے قلیل مدت (عرصہ 6ماہ) میں خطیر رقم لگا کر جامعہ میں پہلے سے موجود طلبہ کے سابقہ بلاک کی تزئین و آرائش کرتے ہوئے 24 جولائی 2017ء کو الجامعۃ السلفیۃ للبنات کے نام سے ادارہ قائم کرکے باقاعدہ طالبات کے داخلے کا آغاز کردیا۔

بورڈ وفاق المدارس السلفیۃ پاکستان سے الحاق
24 جولائی 2017 ء کو جامعہ سلفیۃ للبنات میں باقاعدہ طالبات کے داخلہ کا آغاز کر دیا گیاتھا اور ساتھ ہی بورڈ وفاق المدارس السلفیۃ پاکستان سے اس ادارے کے الحاق کے لئے 23 اکتوبر 2017ء کو درخواست لکھ دی گئی۔ جس پر بورڈ وفاق المدارس السلفیۃ نے ضروری کاروائی اور معلومات مکمل کر لینے کے بعد الجامعۃ السلفیۃ للبنات اسلام آباد کا اپنے بورڈ کے ساتھ الحاق کر لیا۔اور الحاق سرٹیفیکیٹ( الحاق نمبر 100929 کے ساتھ) جاری فرمادیا۔

تمام کاپی رائٹ جامعہ سلفیہ اسلاآباد، پاکستان کے پاس محفوظ ہیں۔

crossmenu linkedin facebook pinterest youtube rss twitter instagram facebook-blank rss-blank linkedin-blank pinterest youtube twitter instagram